مکتوب شریف حضرت شیخ عبدالغفار فضلی نقشبندی مجددی (م ۱۹۶۴) المعروف پیر مٹھا قدس سرہ
یہ مکتوب آپ نے اپنے مرید جناب حاجی نواب شاہ صاحب کی طرف لکھا۔
حوالہ: جماعت اصلاح المسلمین، پاکستان
مکتوب شریف نیچے شروع ہوتا ہے۔
بخدمت گرامی حاجی نواب شاہ صاحب۔ سلامت باشد
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ و مغفرتہ
آپ کا مکتوب پہونچا حقیقت سے آگاہی ہوئی۔ عزیزا حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے لکھا ہے کہ جو شخص غائبانہ چاہے ہزار کوس پر بھی ہو اپنے پیر کا تصور کرکے سامنے اس تصور کے با ادب اور کمال نیاز بازانو ہوکر بیٹھے اور فیض کا ان سے انتظار رکھے اور ہر وقت اس طرح کرتا رہے، تو فورًا تھوڑے عرصہ میں اس شخص کو اتنا ہی فائدہ ہوویگا جو شخص کہ پیر کے سامنے رہنے والا ہے۔ اور اس کا فیض اس حاضر رہنے والے سے کم نہ ہوویگا، بلکہ دن بدن ترقی کرتا جاویگا۔ یہ ایک ایسی نعمت ہے کہ ہر بوالہوس کو نہیں دی جاتی بلکہ خاصان کو عطا کی جاتی ہے۔ محبت پیر کی آج کل کالعنقا گم ہوگئی ہے، لیکن ”لَیس من فضل اللہ ببعید“۔ طالب کو چاہئے کہ ہر وقت ہمت کو برگماشتہ رکھے اور کوشش میں ہرگز کوتاہی نہ کرے۔ بیت
اگر شاہ بیاید بدر پیرہ زن
تو از حسرت خواجہ سبلت مکن
عزیزا توجہ دینے کے وقت خود کو ناموجود سمجھنا چاہئے، گویا اس طرح سمجھے کہ میں موجود ہی نہیں ہوں اور قطب الاقطاب محبوب الٰہی حضرت قریشی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس حلقہ میں موجود ہیں اور فیض ان سے آرہا ہے اور توجہ کے وقت یہی تصور ہونا چاہئے کہ فیض اس حضرت ممدوح سے آرہا ہے۔ اور یہی خیال اٹھتے بیٹھتے رکھا کریں۔
تو خود مباش اصلا کمال این است و بس
اپنے کو ہمیشہ نابود و لاشئی سمجھنا چاہئے اور خود کو اصحاب قبور میں سے سمجھنا چاہئے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہے ”عدّ نفسک کانک من اصحاب القبور“۔ فیض کی نسبت اپنی طرف نہ کرنی چاہئے، یوں سمجھیں کہ پیران سے فیض آرہا ہے۔ اور جماعت میں رشد و جذبہ دکھائی دیوے تو یہ بھی یوں سمجھیں کہ پیر قریشی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ توجہ دے رہے ہیں۔ غرض یہ کہ اپنے کو بالکل گم اور لاشئی سمجھیں۔
باقی احوال عند الملاقات معروض ہوویگا۔ بخدمت گرامی مکرمی و محترمی مولوی نور محمد صاحب و جمیع جماعت اہل ذکر و مشفقی محمد علی شاہ صاحب السلام علیکم و مشفقی میاں بڈھل کو السلام علیکم مطالع باد۔ بموقع ۲۷ رمضان شریف اگر فرصت مل سکے تو یہاں تشریف لانا، فائدہ عظیم ہوویگا۔ جمیع جماعت اہل ذکر کو مضمون واحد معروض باد کہ آنا جانا موجب ترقی باطن کا ہے، ہر چند اس امر میں امتناع اور دریغ نہ کی جاوے۔ بلکہ روز بروز اشتیاق، قلق اور فراق افزوں ہونی چاہئے۔
ہم چوں سود ہندواں ہر روز گردد بیشتر
والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ