مکتوب شاہ عبدالعزیز دہلوی: بنام شاہ غلام علی دہلوی مجددی، فرنگی کی نوکری کی وضاحت کے متعلق

مکتوب شریف حضرت شاہ عبد العزیز دہلوی نقشبندی (وفات ۱۲۳۹ھ) رحمۃ اللہ علیہ، فرزند و جانشین حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ

یہ مکتوب آپ نے فرنگی کی نوکری کی وضاحت کے متعلق جضرت قطب الاقطاب شاہ غلام علی نقشبندی مجددی دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کو لکھا۔

زبان: فارسی

اردو ترجمہ: مولوی محمد سلیمان بدایونی و مولوی محمد جمیل الدین بدایونی

حوالہ: فضائل صحابہ و اہل بیت مع مکتوبات شاہ عبدالعزیز و شاہ رفیع الدین دہلوی، قومی کتب خانہ، لاہور، فروری ۱۹۶۷

مکتوب شریف نیچے شروع ہوتا ہے:

شاہ صاحب عرفان مراتب، سلمکم اللہ تعالیٰ۔ بعد سلامِ مسنون معلوم ہو کہ آپ کا خط ملا جس میں آپ نے اس مدرسہ میں چند روز سے فرنگی کی نوکری عہدۂ مفتی قبول کرنے کی خبر سن کر متفکر ہونے کا حال لکھا ہے۔ کچھ خبر تو صحیح ہے اور کچھ صحیح نہیں۔ اصلی بات یہ ہے کہ مولوی رعایت علی، فرنگی کے مختارکار بہت امادہ ہیں اور بار بار مجھے لکھا کہ ایک عالم جو متدین ہو اور رشوت خور نہ ہو اور فقہی مسئلوں سے خوب واقف ہو میرے پاس بھیج دیجئے تاکہ میں ہر واقعہ اور حادثہ میں فقہ کے بموجب فیصلہ کر سکوں۔ یہاں سے یہ لکھا گیا کہ آپ فرنگی کے نوکر اور دبے ہیں، ایسا نہ ہو کہ وہ خلافِ شریعت احکام کی تعمیل کا حکم دیں اور ایسی حالت میں اس شخص کو فرنگیوں سے ملنے کی ضرورت پڑے اور امورِ اسلام میں سستی کا باعث ہو۔ وہاں سے بڑی تاکیدوں کے ساتھ تحریر آئی کہ اس شخص کو فرنگیوں سے ملنے کی قطعاً ضرورت نہ ہوگی اور نہ انہیں خلافِ شرع حکم کی تکلیف دی جاوے گی، بلکہ شہر میں ایک علیٰحدہ مکان میں قیام کریں گے اور شرعِ محمدی کے مطابق بے کھٹکے حکم کریں۔ ان تحریرات کے موصول ہونے پر اس پر غور و فکر کیا گیا کہ کافروں کے ساتھ ایسا تعاونِ عمل جس سے شرعی احکام کا رواج متصور ہو شریعت کی رو سے جائز ہے یا نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے یہ آیت دل میں:

قال الملك اجعلني …. اني حفيظ عليم (سورة يوسف)

بیضاوی نے کہا کہ اس آیت میں کافر سے ملازمت چاہنا اور اس کے متعلق مدد کرنا اور ملازمت کرنا جبکہ خلق پر اقامت حق اور سیاست کی کوئی راہ نہ ہو سوائے اس کے اس کے جواز کی دلیل ہے۔

یہ تو شریعت سے تعلق رکھتا ہے۔ رہا طریقت کی بابت، تو ترک و تجرید اور فقر کا اختیار کرنا اور کسب کو چھوڑنا جملہ طریقوں میں اس شخص کے لئے ہے جو اپنے اختیار سے اس ترک کو اپنے اوپر لازم کر لے اور کسی کے ہاتھ پر اس عہد کی بیعت کرے۔ جب کوئی شخص ایسے فقر کا التزام اور اس پر عہد نہ کرے اور دنیاوی علائق سے تعلق اور ملازمت کرنے کے باوجود اسے مشغولی باطن ذکر و فکر کرنے سے اور مشاہدہ حاصل ہوتا ہے، بالجملہ کسبِ معاش اور تعلق کی اجازت ہے۔ یہ طریقت میں حرام نہیں ہیں، ورنہ قاضیوں اور دیگر اہل پیشہ کو طریقت کی تعلیم دینا جائز نہ ہوتا۔ حالانکہ اس فرقہ کے بہت اشخاص اولیائے اکابر ہوئے ہیں اور تکمیل اور کمال کے درجہ پر پہنچے ہیں۔ پھر ایک مبتدی کا کیا ذکر ہے۔

اس طریقت میں ترک اور تجرید قصد اور ارادے سے ہوتی ہے اور وہ بھی چند شرطوں کے ساتھ، یعنی بال بچے نہ ہوں اور والدین نہ ہوں، کیونکہ ان کی خدمت فرض ہے۔ اور قرابت دار نہ ہوں جن پر شفقت واجب ہے۔ پس قابل غور یہ ہے کہ اس میں کافروں کی صحبت اور حدودِ اسلام میں سستی یا کفر کی رسوم میں ان کی موافقت یا ان کی خوشامد یا کذب یا دیگر مفاسد کا کوئی خوف اور اندیشہ نہیں ہے جو مالدار مصاحبوں کو لاحق ہوتا ہے۔ پس یہ شریعت اور حقیقت دونوں میں بلا شک و شبہ مباح ہے۔ مثلاً ہم نے سنا ہے اور دیکھا ہے کہ خلفاء اور بعض اصحاب اور اولیاء معلّم گری کرتے اور یہودی بچوں کو پڑھاتے اور عمدہ بشارات حاصل کرتے تھے۔ پھر ایسے شخص کا کیا ذکر ہے جس نے ابھی اس وادی میں قدم نہ رکھا ہو اور ترک اور تجرید کو اختیار نہ کیا ہو۔

ان امور مرقومہ کی بنا پر یہ تجویز کیا گیا تھا کہ مولوی عبدالغنی صاحب یہاں سے جاویں۔ اور اگر وہ برائیاں نہ ہوں جن کا وہم و گمان ہے تو خیر، ورنہ لوٹ آویں۔ جب اتنا معلوم تھا تو دل میں برافروختگی نہ ہونی چاہیے تھی اور اتنا ذہن نشین مجملاً ہونا چاہیے تھا کہ میں نے بھی عمر بھر ان مذکورات میں صرف کی ہے اور اپنے آباؤ اجداد کی وضع کو دیکھا اور سنا ہے۔ دفعۃً کوئی ناپسندیدہ حرکت بلا حجت شرعی اور حقیقت کی بابت بلا سوچے سمجھے نہ ہوگی جو مکروہ اور بری ہوں نہ اپنے لئے اور نہ دوسروں کے لئے تجویز کی جاوے گی۔ زیادہ کیا لکھوں۔ والسلام والاکرام

أضف تعليقاً

لن يتم نشر عنوان بريدك الإلكتروني. الحقول الإلزامية مشار إليها بـ *