مکتوب شیخ عثمان دامانی ۲۔ حقیقتِ وجودِ عدم اور عورتوں کی اجازت کے بارے میں

مکتوب شریف حضرت شیخ محمد عثمان دامانی نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ علیہ (وفات ۱۳۱۴ھ)، خانقاہ احمدیہ سعیدیہ موسیٰ زئی شریف، ضلع ڈیرہ اسماعیل خان، پاکستان

مکتوب ۲۔ یہ مکتوب آپ نے اپنے مرید و خلیفہ جناب مولوی محمد امتیاز علی خان صاحب کے نام تحریر فرمایا۔

موضوع: حقیقتِ وجودِ عدم اور عورتوں کی اجازت کے بارے میں

حوالہ: تحفۂ زاہدیہ، مکتوبات خواجہ محمد عثمان دامانی و خواجہ سراج الدین، زوار اکیڈمی پبلی کیشنز، کراچی، طبع دوم ۲۰۰۰

فارسی سے اردو ترجمہ: صوفی محمد احمد نقشبندی مجددی زواری

مکتوب شریف نیچے شروع ہوتا ہے:

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الحمد للہ و سلام علیٰ عبادہ الذین اصطفیٰ

اما بعد۔ محبت و اخلاص نشان محمد امتیاز علی خاں صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ بعد تسلیمات و تکریمات کے، فقیر حقیر لاشئ کی طرف سے معلوم ہو کہ منعمِ حقیقی جلّ شانہٗ کے فضل و کرم سے فقیر یہاں پر ہر طرح خیریت سے ہے۔ نیز آپ کی خیریت، سلامتی، عافیت اور شریعت مطہرہ پر دائمی استقامت کے لئے درگاہِ ربّ العزت میں دعا کرتا ہوں۔

عرض یہ ہے کہ آپ کا نامہ گرامی اس ناکارہ درویش کو موصول ہو کر باعثِ مسرت ہوا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جمیع عوارضات و تکالیف سے نجات فرمائے اور اپنے حبیب پاک صلّی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے اور پیران کبار علیہم الرضوان کے صدقے میں اپنی ذات مقدس کی محبت سے سرفراز فرمائے۔ آمین
آپ نے حقیقتِ وجودِ عدم اور عورتوں کی اجازت کے متعلق دریافت فرمایا ہے۔ وجودِ عدم کے متعلق یہ عرض ہے کہ اس کی دو قسمیں ہیں۔ ایک واجب الوجود اور دوسرا ممکن الوجود۔ واجب الوجود اللہ جلّ شانہٗ کی صفت ہے۔ ممکن الوجود کا اطلاق ماسوی اللہ پر ہوتا ہے۔ جب واجب الوجود تھا اس وقت کوئی بھی نہ تھا۔ اس مرتبے کو عدم سے تعبیر کرتے ہیں۔

پس مقابلہ کہاں ہوا؟ مقابلہ تو ان دو چیزوں میں ہوتا ہے جو صفت میں برابر ہوں۔ یہاں پر تو مساوات نام کو بھی نہیں۔ حضرت امام الطریقۃ امامِ ربانی مجدد الفِ ثانی قدس سرہٗ کے مذہب کے مطابق ممکن کی حقیقت عدم ہے۔ پس ممکنات کے حقائق عدمیات ہوئے نہ کہ غیر۔ قرآن مجید میں سیپارہ والمحصنٰت، سورہ نساء میں ہے:

ما اصابك من حَسنةٍ فمن الله وما اصابك من سيّئةٍ فمن نفسك

”اے انسان تجھ کو جو کوئی خوش حالی پیش آتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے اور جو کوئی بدحالی پیش آتی ہے وہ تیرے ہی سبب سے ہے۔“

صاحبِ من! ہمارے حضرات مجددیہ کے مذہب میں اعدام اضافیہ و ظلال صفات حقیقیہ کے حقائق ہیں، یعنی ان اعدام نے اسماء اور صفات کے تقابل کی بناء پر علمِ الٰہی میں ثبوت پیدا کیا ہے اور انوار و صفات کے مبصر ہوئے ہیں اور عالم کے تعینات کے لئے مبادی بنے۔ اور خارج ظلی جو کہ خارج حقیقی کے ظل کے ساتھ موجود ہوئے ہیں۔ دنیا اسی عدم وجود کی ترکیب سے آثارِ خیر و شر کے مصدر ہوئی ہے۔ جہت عدم ذاتی سے دنیا کسبِ شر کرتی اور جہت وجودِ ظلی سے کسبِ خیر کرتی ہے۔ فقط۔ اگر یہ مسئلہ آپ کی سمجھ میں آ جائے تو فھو المراد۔ ورنہ تو مولوی شیرازی صاحب سے مل کر بالمشافہ اس خط کے مضمون کو سمجھ لیں۔

وہ جو آپ نے عورتوں کی اجازت کے متعلق دریافت فرمایا ہے، تو مخدومنا اس کے متعلق عرض یہ ہے کہ اگر سالک کو دوام حضور، فنائے قلب و تہذیب و اخلاق اور اتباعِ سنت پر استقامت حاصل ہو جائے تو اس کو اجازت دے دیتے ہیں۔ مگر یہ اجازت کا ادنیٰ درجہ ہے اور اوسط و اعلیٰ درپیش ہے۔ لیکن عورتوں میں سے کسی خاص کو اجازت دینا مرشد کی رائے پر منحصر ہے۔ پر ایسا کرنے میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے تا کہ طریقے میں آیندہ کسی قسم کا کوئی نقصان واقع نہ ہو۔

أضف تعليقاً

لن يتم نشر عنوان بريدك الإلكتروني. الحقول الإلزامية مشار إليها بـ *