مکتوب شریف حضرت خواجۂ خواجگان قطب الاقطاب سیدنا خواجہ عبید اللہ احرار سمرقندی نقشبندی رضی اللہ تعالیٰ عنہ (وفات ۸۹۵ھ)
حضرت مولانا عبد الرحمٰن جامی قدس سرہٗ کی طرف تحریر فرمایا۔
بے شک مولانا جامی اپنے آپ کو خواجہ احرار کا ایک راسخ العقیدہ نیاز مند سمجھتے تھے، لیکن مندرجہ ذیل خط سے معلوم ہوتا ہے کہ خود خواجہ احرار کو مولانا سے کیا قربت حاصل تھی اور ان کا کس قدر احترام کرتے تھے۔ خواجہ احرار نے الفاظ کا چناؤ اس طرح کیا ہے گویا وہ مرید اور مولانا جامی مراد ہوں۔ (عارف نوشاہی)
زبان: فارسی
اردو ترجمہ: عارف نوشاہی
حوالہ: خواجہ احرار (اردو)، مصنف عارف نوشاہی، پورب اکادمی، اسلام آباد، پاکستان، جنوری 2010ء۔ بحوالہ رشحات عین الحیات
مکتوب شریف نیچے شروع ہوتا ہے:
نیاز کے بعد، اس بے چارے، گرفتار کی عرض داشت یہ ہے کہ کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ گستاخی کر کے اپنی خرابی احوال آپ کے آستانہ تک پہنچاؤں، لیکن مجھے ڈر ہے کہ اس فقیر کی خرابی احوال آنجناب کے لیے ملال آور ہوگی۔ ”ذکر الوحشۃ وحشۃ“ (وحشت کا ذکر خود وحشت ہے) بہ ہر حال میرے ملحوظ ہے۔ میری خواہش ہے کہ اس درماندہ کی خرابیِ احوال پر نظر کریں اور اس ضعیف سے ہمدردی، جو کہ اخلاقِ کریمہ ہے، کا اظہار کریں۔ میں اپنی گرفتاری کا سبب سوائے اس کے اور کچھ نہیں جانتا کہ:
هر که را دیو از کریمان وا برد
بی کسش سازد، سرش را وا خورد
(ترجمہ: جسے دیو، کریموں کے پاس سے اٹھا کر لے جاتا ہے اسے بے کس بنا دیتا ہے اور اس کا سر چبا لیتا ہے)
والسّلام والاکرام