مکتوب شریف حضرت قیومِ ثالث حجۃ اللہ خواجہ محمد نقشبند سرہندی فاروقی مجددی نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ (وفات ۱۱۱۵ھ)، فرزند حضرت خواجہ محمد معصوم سرہندی رحمۃ اللہ علیہ (وفات ۱۰۷۹ھ)
ذکرِ قلبی اور نفی و اثبات کے طریقہ کے بیان میں (مکتوب الیہ کا نام درج نہیں)
زبان: فارسی
اردو ترجمہ: محمد نذیر رانجھا
حوالہ: وسیلۃ القبول الی اللہ والرسول، مترجم محمد نذیر رانجھا، الفتح پبلی کیشنز، راولپنڈی، پاکستان، ۲۰۱۲ء
مکتوب شریف نیچے شروع ہوتا ہے:
اَلحَمدُ لِلهِ وَسَلٰمٌ عَلىٰ عِبَادِهِ الَّذِينَ اصۡطَفىٰ. (سورة النمل، آیۃ ۵۹)
(سب تعریفوں کے لائق اللہ تعالیٰ ہے اور اس کے ان بندوں پر سلام ہو جن کو اُس نے منتخب فرمایا۔)
آپ کے عنایت نامہ کی وصولی سے مشرف ہوا۔ جواب میں تاخیر کا سبب یہ ہوا کہ فقیر جب سے اس شہر میں آیا تھا، بیماری اور ضعف کی وجہ سے حضرت خواجہ قطب الدین (بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ) کی زیارت کو نہ پہنچ سکا تھا، باوجود اس کے کہ کبھی کبھی ان بزرگوں کی اپنے پاس آمد کو محسوس کرتا تھا۔ بہرحال (آپ کے) عنایت نامہ کے پہنچنے کے بعد جب طبیعت میں شرمندگی دیکھی تو اُن کی زیارت کے ارادے سے متوجہ ہوا۔ حضرت خواجہ (قطب الدین رحمۃ اللہ علیہ) کی زیارت کی نیت سے نکلنے کے بعد راستے کی مصیبتوں کو شروع سے آخر تک اپنے ساتھ پایا، گویا انہوں نے مہربانی کرتے ہوئے سبقت فرمائی اور اپنے ساتھ لے گئے۔ (فقیر نے) وہاں پہنچنے کے بعد اُن کے بعض حالات و مقامات کی اطلاع پائی اور اُن کی مہربانیاں اور عنایتیں ملاحظہ کیں۔ فقیر کی نسبت نے بھی اس جگہ اللہ تعالیٰ کے کرم سے کمالِ جامعیت کے ساتھ آسمانوں اور زمین تک احاطہ کر لیا اور وہ انتہائی عروج، شان و شوکت اور انوار کے ساتھ ظاہر ہوئی۔
مختصر یہ کہ ہوا جو کچھ ہوا۔ اس دوران شہر کے جو دوست راستے میں تھے، انہوں نے (فقیر کو) دو تین روز تک تکلیف کرتے ہوئے اپنے گھر میں رکھا۔ آخری روز جمعہ کو غموں والے اپنے گھر میں پہنچا۔ آج جو کہ ہفتے کا دن ہے، (فقیر) جواب لکھنے کا پابند بنا ہے۔
چونکہ آپ مہربان صاحبہ اس بارے میں بہت زیادہ مبالغہ کرتی ہیں، (لہٰذا) اپنے سابقہ اذکار میں مشغول رہیں۔ لیکن جاننا چاہیے کہ اسم ذات کے قلبی ذکر میں یہ کمال ہے کہ وہ ہمیشگی حاصل کر لیتا ہے، اور کسی وقت میں، کیا سوتے ہوئے اور کیا جاگتے ہوئے اور کیا غفلت کے وقت میں بھی ذکر کا ظاہر دل سے الگ نہیں ہوتا، بلکہ بال کی ہر جڑ میں سرایت کرتا ہے اور سر سے لے کر پاؤں تک (جسم) ذاکر بن جاتا ہے، اس حد تک کہ ذکر اور حضور و نور کے سوا (کسی چیز کی) دل میں گنجائش نہیں رہتی۔ اور خواہ تکلف کے ساتھ غیر کا خیال کرے، وہ دل میں نہیں آتا۔ اس حالت کو فنائے قلب سے تعبیر کرتے ہیں اور (یہ) اِس راستے کا پہلا قدم ہے۔
اور یہی حال ہے ذکر روح کا جو کہ سینہ کے دائیں طرف ہے، جس طرح کہ دل بائیں طرف ہے۔ اسی طرح ذکرِ اخفیٰ جو کہ سینے کے درمیان میں ہے، اور ذکرِ سرّ و خفی جو کہ اخفیٰ کے دونوں طرف ہے، جو کہ خدا کے پیغمبر صلّی اللہ علیہ وسلّم کی ولایت ہے۔
از پئے این عیش و عشرت ساختن
صد هزاران جان بباید باختن
(اس طرح کے عیش و عشرت کو پانے کے لیے لاکھوں جانیں قربان کرنی پڑتی ہیں۔)
چاہیے کہ آپ ان لطائف کے ذکر کے پابند رہیں اور سب سے بہرہ مند ہوں۔ ذکر کے کمال میں ذاکر درمیان سے محو اور متلاشی ہو جاتا ہے اور مذکور (جس کا ذکر کیا جائے) جلوہ گر ہو جاتا ہے۔ ذکر نفی و اثبات جس کا نتیجہ فنائے نفس ہے، اس طرح کرنا چاہیے: ”لَا (اِلٰہَ)“ نہیں معبود کوئی مقصود، ”اِلَّا اللہ“، سوائے ذاتِ پاک کے۔ زبان سے بھی جس قدر یہ ذکر میسر ہو جائے، اس میں بھی کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔ اس معنی سے تصور کرنا چاہیے تا کہ سالک درمیان سے خود اٹھ جائے اور شہودِ حق کے سوا کوئی چیز نہ رہے: ؏
این کار دولت است کنون تا کرا دهند
(یہ دولت کا کام ہے، اب دیکھئے کہ کسے دیتے ہیں)
امید ہے کہ انہیں یہ دولتیں محبت کے راستے سے نصیب ہوئی ہوں گی، اللہ تعالیٰ مزید پر مزید عطا فرمائے اور کمال و تمام کے ساتھ ان دو دِلوں کو اور عنایت فرمائے۔
ذاکر ”لَا“ کہتے ہوئے خود کو اور اپنی صفات کو، سب کو نفی کرے اور نیست و نابود (فنا) ہو جائے تا کہ ظہورِ حقیقی اور نورِ ہستی ظاہر ہو جائے۔ اکثر (ایسا ہوتا) ہے کہ سالک اس دنیا میں ان امور کو خود میں نہیں دیکھتا، لیکن مرشد کامل ان کو اس میں دیکھتا ہے۔ آخرت میں انشاء اللہ سب ظاہر فرمائیں گے اور بلند درجات میں پہنچائیں گے۔
(فقیر) بعض دوسرے مقامات بھی لکھتا ہے۔ مراقبہ کے دوران توجہ اللہ کی جانب ہو جاتی ہے اور (سالک) اس کے علم کو خود پر محیط دیکھتا ہے اور اس فکر و اندیشہ میں بیٹھتا ہے کہ اللہ سبحانہٗ میرے ظاہر و باطن سے آگاہ ہے۔ اس مراقبہ میں غیب اور جس راز سے آگاہی ملے، پر نیچے آنا چاہیے اور خود کو کم بنانا چاہیے اور خود پر سا کے علم میں سے کسی چیز کو احاطہ نہیں سمجھنا چاہیے۔ امید ہے کہ یہ مراقبہ نفع بخش نتائج دے گا اور جمعیتیں بخشے گا۔
بہرحال اس فقیر کو ہمیشہ دعا و توجہ میں (مشغول) سمجھیں، اس میں اضافہ کی امید رکھیں:
می تواند که دهد اشک مرا حسن قبول
آن که در ساخته است قطرۂ بارانی را
(ہو سکتا ہے کہ وہ میرے آنسو کو حسنِ قبولیت بخش دے، جس نے بارش کے قطرے کو موتی بنا ڈالا ہے)
بہرحال تمام حالات کی کیفیات سے کبھی کبھی آگاہ کرتے رہیں، تا کہ اس کے مطابق ایک چیز لکھی جائے۔ زیادہ کیا زحمت دی جائے۔ والسّلام