مکتوب شریف حضرت شمس الدین حبیب اللہ مرزا مظہر جانِ جاناں شہید دہلوی نقشبندی مجددی (شہادت ۱۱۹۵ھ) رحمۃ اللہ علیہ، بانی خانقاہ مظہریہ، دہلی
اپنے حسب و نسب اور آبائے کرام کے بارے میں۔
زبان: فارسی
اردو ترجمہ: خلیق انجم
حوالہ: مکتوبات مرزا مظہر جانِ جاناں شہید، مرتب و مترجم خلیق انجم، مکی دار الکتب، لاہور، دسمبر ۱۹۹۷
مکتوب شریف نیچے شروع ہوتا ہے:
برخوردار تم نے دوبارہ التماس کیا ہے کہ فقیر اپنا حسب و نسب لکھے۔ چونکہ اس میں کوئی خاص فائدہ نہیں تھا، اس لئے میں نے تغافل کیا۔ اب جب کہ (تمہاری) منّت و سماجت حد سے بڑھ گئی ہے (تو) مختصر طور پر تحریر کیا جاتا ہے۔ معلوم ہونا چاہئے، حقیقت میں اس فقیر کا سرمایۂ وجود کا آغاز ایک قطرۂ آب اور انجام ایک مشتِ خاک ہے۔ اور اِس عالم اعتبار میں خاکسار کی نسبت کا سلسلہ چھبیس (۲۶) واسطوں سے حضرت محمد بن حنفیہ کے توسط سے شیر بیشۂ کبریا علی مرتضیٰ علیہ التحیۃ والثناء تک پہنچتا ہے۔ فقیر کے اجداد میں سے ایک بزرگ آٹھویں صدی ہجری میں کسی تقریب سے (ترک وطن کر کے) طائف سے ترکستان آئے تھے۔ انہوں نے اس علاقے کے ایک حاکم کی لڑکی سے جو قبیلہ الوس قاقشالان کا سردار تھا شادی کر لی۔ چونکہ اس (حاکم) کا کوئی لڑکا نہیں تھا، اس لئے اس علاقے کی حکومت کا تعلق ان کی (امیر کمال الدین کی) اولاد سے ہو گیا۔ جب ہمایوں بادشاہ نے مملکت ہندوستان کو سرکش پٹھانوں سے نجات دلائی تو اس خاندان کے دو بھائی محبوب خان اور بابا خان کو ساتھ لایا، جن کا سلسلہ تین پشت پر امیر کمال الدین سے ملتا تھا۔ ان دونوں کا حال عہدِ اکبری کی تاریخوں میں لکھا ہوا ہے۔ ان بزرگوں کا نسبِ مادری امیر صاحب قرآن کے خاندان تک پہنچتا ہے۔ اور فقیر کا سلسلہ چار واسطوں سے بابا خان پر منتہی ہوتا ہے۔ خان مذکور بابا خان نے عہدِ اکبری میں بغاوت کی تھی، اس جرم کی پاداش میں ۔۔۔۔۔۔
میرے والد بھی کم منصبی کی سزا میں گرفتار تھے۔ انہوں نے عمر کا بڑا حصہ اورنگزیب کی خدمت میں گزارا۔ آخر ترکِ دنیا کی دولت سے مفتخر اور ممتاز ہوئے اور قادریہ سلسلے کے ایک بزرگ کی خدمت سے استفادہ کیا۔ انہوں نے ۱۱۳۰ھ میں اس دنیا سے رحلت کی۔ فقیر کی ولادت ۱۱۱۳ھ میں ہوئی۔ سولہ سال کی عمر میں یتیم ہو گیا تھا۔ بیس سال کی عمر میں کمر ہمت باندھ کر دنیا سے ہاتھ اٹھا لیا اور فقر کی راہ میں ریاضت شروع کی۔ علوم متعارفہ والد کے زمانہ میں پڑھے اور کتب حدیث حاجی محمد افضل سیالکوٹی کی خدمت میں پڑھیں جو شیخ المحدثین شیخ عبداللہ بن سالم مکّی کے شاگرد تھے۔ اور قرآن مجید شیخ القراء شیخ عبد الخالق شوق کے شاگرد حافظ عبد الرسول دہلوی سے سند کیا۔ طریقۂ نقشبندیہ کا خرقہ اور اجازتِ مطلقہ جناب سید السادات نور محمد بدایونی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حاصل کیے جن کا سلسلہ دو واسطوں سے حضرت مجدد الف ثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملتا ہے۔ ایک عمر اُن کی خدمت میں گزاری۔ ان کی وفات کے بعد اس طریقہ کے متعدد مشائخ سے استفادہ کیا۔ اور آخر کار مدت تک فیض آشیانہ حضرت شیخ الشیوخ محمد عابد سنامی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آستانے پر جبہ سائی کی۔ ان کا سلسلہ بھی دو واسطوں سے حضرتِ مجدد سے ملتا ہے۔ ایک مدت تک ان کی خدمت کر کے قادریہ، سہروردیہ اور چشتیہ طریقوں کا خرقہ اور اجازت ان سے حاصل کی۔ آج تک کہ ۱۱۸۵ھ ہیں ان بزرگوں کے حکم کے مطابق تیس سال سے طالبانِ خدا کی تربیت کر رہا ہوں۔ خدا اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے خاتمہ بالخیر کرے۔