مکتوب شریف حضرت سید امام علی شاہ نقشبندی مجددی (وفات ۱۲۸۲ھ)، باقی خانقاہ مکان شریف
رابطۂ شیخ کی کیفیات اور نسبتِ محبت کے بیان میں یہ مکتوب آپ نے میاں مظہر جمال صاحب کی طرف تحریر فرمایا۔
زبان: فارسی
اردو ترجمہ:صاحبزادہ سید بشارت حسین مکان شریفی
حوالہ: مکتوباتِ قطبِ ربانی سیدنا امام علی شاہ مکان شریفی، لاہور
مکتوب شریف نیچے شروع ہوتا ہے:
نسخہ مواجید و اذواق، مجموعہ سوز و استغراق، جامع جذب و سلوک، حقائق آگاہ میاں صاحب مظہر جمال، بارک اللہ فیما اعطاہ
ترقیوں اور مقاصد کی انتہا کے مقام سے ملاپ کی مسلسل دعاؤں کے بعد، آپ کے مکتوب شریف کے ملنے پر دل کی پاکیزگی کے نظارے ظاہر ہوئے۔ چونکہ یہ خط بزرگ حالات اور صاحب رتبہ عقیدت پر مشتمل تھا، اس کے مطالعے نے مسرت و خوشی بخشی۔ تحریر تھا کہ جب دورانِ طریق آپ کی ذات اقدس کی طرف توجہ کا اظہار کرتا ہوں تو ایک عجیب و غریب کیفیت حاصل ہوتی ہے کہ تحریر و تقریر اس کے بیان سے قاصر ہے، اور وہ یہ ہے کہ آپ کی بلند و دبدبے والی (شخصیت کی) تجلیات کا ملاحظہ کرنے سے میری حقیقت میں تبدیلی اور تغیر اور پورے طور پر نیستی کا ظہور ہوتا ہے اور شکل و خصائل و عادات و صورت و انداز اور آواز تک آنجناب کی معلوم ہوتی ہے۔
اے محبت والے! جب سیدھی راہ پانے والے طالب اور قابلیت والے سالک کو فائدہ حاصل کرنے اور فائدہ پہنچانے کی راہ سے اپنے شیخ کے ساتھ تعلق بڑھتا ہے تو لمحہ بہ لمحہ اس کے رنگ میں رنگا جاتا ہے اور اچانک اپنے اوصاف کو چھوڑ کر پیشوا کے اخلاق سے مزین ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ تمام کا تمام اپنے آپ سے باہر آ جاتا ہے اور تمام کا تمام وہی ہو جاتا ہے۔ گویا ”من قتلته انا ديته“ (میں نے اس کو قتل کیا اس لئے اس کا خون بہا اور دیت میں خود ہی ہوں) کا بھید کھل گیا۔
گر بر سرے کوئے ما کشته شوی
شکرانه بده که خون بهائی تو منم
اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مرید باہم لگاؤ کی وجہ سے پیشوا کے اوصاف اپنانے کے بعد اس کا مکمل اظہار تحقیق کی حد تک پہنچ جاتا ہے، تو عادات اختیار کرنے کا لگاؤ اس کی شخصیت میں اثر دکھاتا ہے اور شکل و صورت و سیرت اور انداز میں شمولیت پیدا کرتا ہے اور حقیقی رنگ میں مرید کی صورت شیخ کی صورت کے ہم رنگ ہو جاتی ہے۔ چنانچہ حاضرین بغیر امتیاز کے بینائی اور دانائی کی نظر سے پہچان جاتے ہیں۔ اس قسم کا معاملہ گزشتہ بزرگوں میں بھی وقوع پذیر ہوا ہے۔ صاحبِ ”رشحات“ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت مولانا نور الدین جامی قدس سرہ اپنے پیر حضرت مولانا سعد الدین کاشغری قدس سرہ کی شکل میں باہر آ گئے اور کیفیت یہ تھی کہ مولانا سعد الدین کاشغری قدس سرہ اس وقت جہان سے انتقال کر گئے تھے۔ چنانچہ اس واقعہ نے ہرات میں شہرت پائی اور مخلصین ہر جگہ سے اس آواز کو سن کر آپ کی خدمت میں آتے تھے۔
حاصل کلام: عمدہ کام اپنی ہستی کی نفی کرنا ہے اور اپنے آپ سے اپنی واہمہ ہستی کو مٹانا ہے کہ ان کا یہ نقد حال ہے۔ جس قدر سالک اپنی نیکیوں اور خوبیوں کو اپنے آپ سے علیحدہ کرتا ہے اسی قدر وہ اخلاقِ الٰہی کی قبولیت اور متصف بالصفات ربوبیت و سرمدیت میں درست ثابت ہوتا ہے۔ اور ”من كان لله كان الله له“ کے بھید کا اظہار ہوتا ہے۔ چنانچہ مولوی معنوی قدس سرہ نے فرمایا
غیر مردن نیست فرهنگی دگر
ور نگیرد با خدا اے حیله گر
چون ز خود رستی همه برهان شدی
چون که بنده نیستی سلطان شدی
(اے کوشش کرنے والے! اگر تو خدا تک نہیں پہنچ پا رہا تو مجھ سے سن۔ اگر تو اپنے آپ سے جدا ہو گیا تو سراسر دلیل بن جائے گا۔ اگر تو غلام نہیں رہا تو خود ہی بادشاہ بن جائے گا۔)
معلوم ہوا کہ محبت والی نسبت تمام نسبتوں پر فوقیت رکھتی ہے اور وہ تمہاری استعداد میں کافی ہے اور ذمہ داری کی علامات ظاہر ہیں۔ اس لئے چاہئے کہ اس حکم کے تعلق کے لحاظ کو ہاتھ سے نہ دیں اور ادب کے نکتوں میں سے کوئی نکتہ بھی فرو گزاشت نہ کریں تاکہ جو کچھ اس فقیر کو (آپ کے متعلق) معلوم ہے وہ اہل عالم میں بھی شہرت پا جائے۔